جہاں میں پھیلی ہوئی جو وفا کی خوشبو ہے
حرا سے آئی تھی جو اس صدا کی خوشبو ہے
دبا رہا ہے زمانہ اسے زمانے سے
نہ دبنے پائیگی رب العلٰی کی خوشبو ہے
تمہارے شہر نے سر سے اتار دی چادر
ہمارے گاؤں میں اب بھی حیا کی خوشبو ہے
اکڑ دکھائے کبھی زندگی تو یہ کہنا
تری رگوں میں بھری بس دغا کی خوشبو ہے
مجھے دکھاؤ نہ یوں خواب جان جاں اب تو
تمہارے ہاتھ میں اب بھی حنا کی خوشبو ہے
کسی کے کام بھلا آئے گی کبھی دنیا
جہاں بھی دیکھئے جور و جفا کی خوشبو ہے
ہمیں جھکا نہ سکے گا کبھی جہاں طیب
ہمارے ساتھ تو ماں کی دعا کی خوشبو ہے

128