باقی تو امتحان کوئی رہ نہیں گیا |
جائے پنہ مکان کوئی رہ نہیں گیا |
اب کس بنا پہ ساتھ میں دوں اس کا دوستو |
رشتہ ہی درمیان کوئی رہ نہیں گیا |
مہمان ہو کے جاؤں تو ٹھہروں میں اب کہاں |
اُس گھر میں میزبان کوئی رہ نہیں گیا |
اٹھتی ہو جس سے روشنی امّید کی کرن |
کرتا تھا وہ جو دان کوئی رہ نہیں گیا |
سنتے ہیں عدل کا کہیں ڈنکا بجا کبھی |
ہے زیبِ داستان کوئی رہ نہیں گیا |
کس کے بھروسے جاؤں گا اب اپنے گھر کو میں |
اس میں بھی مہربان کوئی رہ نہیں گیا |
طارق نصیب میں ہے خوشی جس کے ہے وہ خوش |
پر شکر و امتنان کوئی رہ نہیں گیا |
معلومات