باقی تو امتحان کوئی رہ نہیں گیا
جائے پنہ مکان کوئی رہ نہیں گیا
اب کس بنا پہ ساتھ میں دوں اس کا دوستو
رشتہ ہی درمیان کوئی رہ نہیں گیا
مہمان ہو کے جاؤں تو ٹھہروں میں اب کہاں
اُس گھر میں میزبان کوئی رہ نہیں گیا
اٹھتی ہو جس سے روشنی امّید کی کرن
کرتا تھا وہ جو دان کوئی رہ نہیں گیا
سنتے ہیں عدل کا کہیں ڈنکا بجا کبھی
ہے زیبِ داستان کوئی رہ نہیں گیا
کس کے بھروسے جاؤں گا اب اپنے گھر کو میں
اس میں بھی مہربان کوئی رہ نہیں گیا
طارق نصیب میں ہے خوشی جس کے ہے وہ خوش
پر شکر و امتنان کوئی رہ نہیں گیا

0
52