تم جو کاجل سے بھری آنکھ کو پیہم دیکھو
ہے پسِ پردہ کہیں دیدۂ پُر نم دیکھو
مندمل ہونے سے پہلے ہی سکوں دے دے گا
زخم کو اُس پہ لگا کر کبھی مرہم دیکھو
صرف ہمدردی کا اظہار ہی کافی تو نہیں
کیوں کسی گھر میں بچھی ہے صفِ ماتم دیکھو
اس کو درپیش کٹھن لمبا سفر ہے کوئی
گرد افشاں ہیں بہت گیسوئے پُر خم دیکھو
فکر کے سائے عیاں ہوں یہ ضروری تو نہیں
مسکراہٹ ہے چھپائے ہوئے کیا غم دیکھو
تم اگر اس پہ اچٹتی سی نظر بھی ڈالو
زندگی کے ہیں مطالب ہوئے مُبہم دیکھو
تم نے تنقید کی نظروں سے انہیں دیکھا تھا
کون اس بات پہ ہوتا نہیں بَر ہَم دیکھو
پھول کی پتّی تر و تازہ نظر آئے جب
ہے گہر لگتا ہر اک قطرۂ شبنم دیکھو
کچھ تو شاہوں کو بھی صدمات ہوا کرتے ہیں
سرنگوں ہوتے ہوئے قصر پہ پرچم دیکھو
ڈھونڈنا ہے تو کوئی اس کا شناسا ڈھونڈو
آشنا اس سے جو ہو گا کوئی محرم دیکھو
یہ نہ ہو وقت گزر جائے ملاقات نہ ہو
اس کو دیکھا ہی نہ ہو موت کا عالم دیکھو
طارِق اُس وقت محبّت سمجھ آ ئے گی تمہیں
خود کو روتے ہوئے ہنستے ہوئے باہم دیکھو

0
5