گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہُوا |
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہُوا |
قیودِ شام و سحَر میں بسر تو کی لیکن |
نظامِ کُہنۂ عالم سے آشنا نہ ہُوا |
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو |
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو |
کہا حضورؐ نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز! |
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گُداز |
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا |
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز |
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سُوئے گردُوں |
سِکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز |
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا |
ہمارے واسطے کیا تُحفہ لے کے تُو آیا؟ |
“حضورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی |
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی |
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں |
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی |
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں |
جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی |
جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اس میں |
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہُو اس میں” |
معلومات