جس کا ہم سفر رب ہے
اُس کے دل میں ڈر کب ہے
میں تو اک مسافر ہوں
دنیا میرا گھر کب ہے
جھوٹے کو سچا کہہ دوں
مجھ میں یہ ہُنر کب ہے
جڑ سے کاٹا جائے جو
رہتا وہ شجر کب ہے
بند ہوں جہاں آنکھیں
ہوتی واں سحر کب ہے
تیرے در کے بِن میرا
جھکتا اب یہ سر کب ہے
ساتھ ہے خدا جب تک
میرے دل میں ڈر کب ہے

194