*آج کا موضوع*!!!


*استادوں کا احترام کہاں گیا*!!!


پیارے دینی دوستو!

السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و بر کا تہ ۔ امید کرتی ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے، اللہ تعالی آپ سب کو اپنی ایمان میں رکھے اور اپنے کرم سے آپ سب کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور فرمائے آمین یا رب ۔

دوستو! ایک بار پھر سے آپکی بہن صباء آپ لوگوں کے ساتھ ایک نئے اور منفرد موضوع کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں، امید کرتی ہوں کہ آج کا موضوع آپ سب کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک پیغام لے کر آئے گا، اور آپ سب کو میرے موضوعات سے سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا۔ ان شاء اللہ ۔ 

تو موضوع شروع کرنے سے پہلے آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ سب آخر میں مجھے اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں، تاکہ آئندہ آپ کو میرے نئے نئے موضوعات سے واقفیت ہو سکے ۔ 

پیارے دوستو! آج کا موضوع بہت زیادہ اہم اور توجہ کا مرکز ہے ۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ہم تمام انسانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ آج میں اساتذہ کے احترام اور انکے حقوق کی بات کروں گی ۔ اور یہ موضوع والدین کے لئے بہت توجہ کا مرکز ہے ۔ تو آئیے اپنے موضوع کی جانب قدم بڑھاتے ہیں ۔ 

پیارے دینی دوستو! میں پیشے کے اعتبار سے ایک استانی ہوں ۔ اللہ تعالی کا بہت کرم ہے کہ اس نے مجھے یہ مرتبہ عطا کیا، جس مرتبے کے میں قابل نہیں تھی ۔ خیر میں اپنے آپکو اس قابل سمجھتی ہوں کہ اپنے وطن پاکستان اور اپنے دین اسلام کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھ سکوں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو علم حاصل کرنے اور انسانیت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔ 

میں پچھلے 3 سالوں سے اس پیشے سے منسلک ہوں ۔ اور ایک استاد ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمیں علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ تاکہ آئندہ آنے والی نسل پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہو سکے ۔ 

دوستو! ہم سب سوشل میڈیا کا استعمال بکثرت کرتے ہیں ۔ جس میں فیس بک معلومات اور ہر طرح کی سروس استعمال کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ میں پچھلے کئی مہینوں سے فیس بک پر ایڈورٹیزمنٹ کر رہی ہوں ۔ بہت سے طلباء رابطہ کرتے ہیں ۔ مگر جتنے بھی طلباء رابطہ کرتے ہیں، انکا کام صرف لڑکیوں کو دیکھ کر انکے ساتھ دوستی کرنا ہے ۔ یہ بھی لحاظ نہیں کرتے کہ اگلا انکی ماں، بہن کے برابر ہے ۔ حتی کہ جب سختی کرو تو آگے سے بدتمیزی کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور بد اخلاقی کی انتہا یہ ہے کہ آگے سے یار یار کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ مھبت کے میسجز کرتے ہیں ۔ حتی کہ گندی گندی ویڈیو بھیجتے ہیں ۔ اور ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ۔ میں ایک دن رو پڑی ۔ ایک میرا وقت تھا جب میں اپنے استادوں کا بہت احترام کرتی تھی ۔ انکے آگے اف تک نہیں کرتی تھی ۔ مار بھی کھا لیتی تھی ۔مگر جرآت نہیں ہوتی تھی۔

آج کل کے بچے والدین کا احترام نہیں کرتے ،اساتذہ کی کیا خاک عزت کریں گے ۔ استادوں کو وہ جوتی کے برابر نہیں سمجھتے ۔ انکے ساتھ گندی گندی باتیں کرتے ہیں ۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے انسان کی زندگی تباہ برباد کر دی ہے ۔ استاد جو کہ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس کی قدر ناپید ہوتی جا رہی ہے ۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت ٹھیک نہیں کرتے جس وجہ سے بچے غلط راستہ اختیار کرتے ہیں ۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گی، ہمیں ہمیشہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہوں ۔ 

تعلیم کے دوران بچوں کو ہر گز موبائل فون مت دیں ۔ انکی تنہائی پر نظر ڈالیں ۔ اکیلے کمرے میں بچوں کو ٹیلی ویژن مت دیکھنے دیں ۔ موبائل فون پر ایسی ایپس موجود ہیں جس کو دیکھ کر بچے چسکا لیتے ہیں ۔ اور گندی گندی نازیبا حرکات کرتے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے ۔ 

ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کی درست تربیت کریں ۔ انھیں درست اور غلط کی پہچان کروائیں ۔ پیارے بچوں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کا احترام کریں ۔ انکے مقام و مرتبہ کو سمجھیں ۔ انکی عزت کریں ۔ اور اپنا قیمتی وقت اچھے کاموں میں گزاریں ۔ 

اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔ 

دعاؤں کی درخواست ۔

تحریر ۔ صباء لاہور سے


48