الله نے شان و شوکت سے محبوب کو سیر کرایا ہے

مقصود تھا دیکھو جہاں والو میں نے عرش پہ یار بلا یا ہے


ہیں صف بستہ سب حور و ملک بر سایہ نور افلاک تلک

خالق نے فرش سے عرش تلک رحمت کا عطر چھڑ کایا ہے


اس شب کی رونق کیا کہنے ہر جاہ ہی نور کے ہیں آئینے

دوزخ۔   پہ حلم    کا قفل۔     لگا۔۔    رضون۔    نے خلد سجایا ہے

سوئے تھے حطیم میں آقا میرے جبریل بھی آ قدموں پہ گرے

تسنیم سے آپ کو نہلا کر معراج کا مژدہ سنایا ہے

 رب ارنی موسی کہتے رہے پھر طور پر آتے جاتے رہے

دیکھی جو جھلک اک پردے سے موسیٰ کا دل گھبرا یا ہے

الله یہ شان محبوبی خالق نے عطاء کی یہ خوبی

قوسین کے قصر  معلیٰ میں بے پردہ نظارہ پایا ہے

مکہ سے چلے اقصیٰ میں گئے جبریل بھی آپ کے ساتھ رہے

اقصیٰ کا امام بنا کر کے نبیوں سے شان بڑھایا ہے

الله نے اپنی قدرت سے شب بھر میں کیا یہ سارا کرم

خالق نے زمیں سے عرش تلک محبوب کو سیر کرایا ہے

سدرہ پہ ٹھہر کر بولے امیں میں تو ہوں یہیں کا آقا مکیں

جل جائیں گے آگے بال و پر میرا یہ ہی ٹھہرایا ہے

محبوب اکیلے چلتے رہے نور کے پردے میں ڈھلتے رہے

ماذاغ کا کجلہ آنکھوں میں فا اوحی کا تغرا عطایا ہے

خالق کے جلوں میں گم ہو کر کن کن کی صدا میں دھن ہو کر

عتیق وہاں بھی آقا نے رب امتی ورد پکایا ہے


0
33