یہ بات، کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو سب کچھ مل جاتا ہے، مجھے بہت مبہم اور ناقص معلوم ہوتی ہے۔ جب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی مردِ مجاہد حال سے مستقبل ایک لمحہ ہی گزار سکے یا اُس پر آنے والے حالات و واقعات کا زرا سا بھی عقدہ کھلے، تو یہ بات کہ مستقبل میں سب ٹھیک ہو جائے گا، درست معلوم نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ بات صرف اگلے بندے کی دھاڑس بندھانے کے لئے کہی جاتی ہے۔ اِسی کو عرفِ عام میں امید یا آس کہا گیا ہے۔ میں، زندگی کے جس موڑ پر ہوں، جن حالات کا مجھے سامنا ہے، جس تگ و دَو میں میرے شب و روز غلطاں ہیں، اِن باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اس امید کے دھارے میں شامل ہو کر ساری زندگی انتظار کر سکتا ہوں۔ بعض اوقات خیال آتا ہے کہ جس نے بغیر پوچھے زندگی جیسے جبر سے نواز دیا ہے، اُس سے مشورہ کیے بغیر یہ مہلک اور بد تر زندگی اُسے لوٹا دوں۔ اِس وقت، جب میں اپنے دلی جذبات رقم کر رہا ہوں تو میرے شعور میں یہ بات موجود ہے کہ میں انصاف نہیں کر پا رہا۔ زندگی کے صرف تین مشکل مہینے، بے فکرے اور خوبصورت چوبیس سالوں پر حاوی کرنا زیادتی ہے۔ لیکن آخرکار یہ کیسی مایوسی ہے جو میرے اندرون سے چپک بیٹھی ہے اور جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ میں مایوسی کی گہری دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہوں۔ مجھے کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا نہ ہی کوئی ایسا شخص نظر آ رہا ہے جس میں یہ بات کر سکوں۔ جس کے پاس کوئی ایسا جادوئی منتر ہو کہ ادھر میں پڑھوں اور ادھر مایوسی میرے دل و جان سے ایسے نکلے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔۔۔۔ 


سفیان بلال


1
65
اللہ کریم۔۔۔

0