آج کا موضوع ۔

   پیارے نبی رحمت بن کر تشریف لائے ۔

السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و بر کا تہ ۔

پیارے دینی بہن بھائیوں ۔


امید کرتی ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے، اللہ تعالی آپ سب کو اپنی ایمان میں رکھے اور اپنے کرم سے آپ سب کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور فرمائے آمین یا رب ۔

پیارے بہن بھائیوں! ایک بار پھر سے آپکی بہن صباء آپ لوگوں کے ساتھ ایک نئے اور منفرد موضوع کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں ۔ امید کرتی ہوں کہ آپ سب کو آج کا میرا یہ موضوع بہت پسند آئے گا، اور آج کے اس نئے اور منفرد موضوع سے آپ سب کو سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ تو موضوع شروع کرنے سے پہلے آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ سب آخر میں مجھے اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں، تاکہ آئندہ آپ سب کو میرے نئے نئے موضوعات سے واقفیت ہو سکے ۔ 

آج کا موضوع میرے لئے بہت فخر کا باعث ہے ۔ چونکہ آپ سب جانتے ہیں کہ اسلامی سال کا یہ تیسرا مہینہ چل رہا ہے ۔ جس کا نام ربیع الاول ہے ۔ یہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کا مہینہ ہے ۔ اور ہم تمام امت مسلمہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت اہمیت و فضیلت کا باعث ہیں ۔ جو آپ کا نہ ہو سکا، گویا وہ کسی کا بھی نہیں ہو سکتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف نبی و رسول ہیں ۔ بلکہ وہ ساری کائنات کے لئے رحمت العالمین بن کر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد بھٹکے ہوئے لوگوں کی فلاح تھا ۔ آپ نے اپنی ساری زندگی انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لئے وقف کر دی ۔ گویا یوں سمجھ لیں کہ آپکی زندگی کا مقصد انسانوں کی بھلائی تھی ۔ 

جب یہ دنیا نہیں بنی تھی، اللہ تعالی نے آپ کو پوری دنیا کی فلاح کے لئے چن لیا تھا ۔ اللہ تعالی جانتے ہیں، کہ اس دنیا میں ایک ایسا انسان ضرور آئے گا ۔ جو پوری دنیا کو بدل کر رکھ دے گا ۔ اور وہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔ جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو پوری دنیا بکھری ہوئی تھی ۔ کسی کو حق و باطل کے درمیان فرق معلوم نہیں تھا ۔ اللہ تعالی کے وجود سے سب انکاری تھے ۔ کوئی بھی انسان حق کے راستے پر چلنا نہیں چاہتا تھا ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اعلی حکمت عملی اور اچھے اخلاق سے تمام بکھرے ہوئے انسانوں کا دل جیت لیا ۔

گویا حق کا سفر اتنا آسان نہیں تھا ۔اس راہ پر آپ نے سخت ذلت کا سامنا کیا ۔اپنوں کی مخالفت برداشت کی ۔ لوگوں نے طرح طرح سے آپکو شکست دینے کی کوشش کی ۔ مگر آپ نے ہار نہ مانی ۔ اور اللہ تعالی کی رضا کے لئے اپنے بد ترین دشمنوں کو معاف کر دیا ۔ معاف کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لئے بہت ظرف کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن آپ چاہتے تھے کہ تمام انسان حق کے راستے پر چلیں ۔ اللہ تعالی کی سچے دل سے عبادت کریں ۔ اچھے اور فلاحی کاموں میں اپنی زندگی بسر کریں ۔ انسانیت کی فلاح آپ کی پہلی ترجیح تھی ۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے ۔ یہ پیسہ دولت شہرت اور دنیاوی مرتبے اسی دنیا میں رہ جانے ہیں ۔ حقیقی چیز انسان کا اچھا اخلاق اور اسکے نیک اعمال ہیں ۔ ہمیں ان چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مال و دولت اور پیسہ یہ سب عارضی ہیں ۔ اصل زندگی آخرت کا سفر ہے ۔جو ہم مرنے کے بعد طے کریں گے ۔ ایک اور زندگی ہے جو دنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ اچھی ہے ۔ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ۔ یہاں ہم نے مختصر سفر طے کرنا ہے ۔ مگر افسوس! ہم اپنے مقصد حیات کو بھلا چکے ہیں ۔ دنیا کی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ایسا سوچنا سراسر غلط ہے ۔ 

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کریں ۔ اس سے سچی محبت کریں ۔۔اس کی پاکیزہ ذات کو سمجھیں ۔ اس کو سمجھیں کہ وہ کون تھے ۔اور وہ کیوں اس دنیا میں بھیجے گئے ۔ جس دن ہمیں حضرت محمد کی قدر سمجھ آ گئی گویا ہم نے پوری دنیا کو فتح کر لیا ۔ صرف ایک دن ہی کیوں ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میرے پیارے آقا کا تو ہر دن ہے ۔ اور ہمیں ہر روز اچھے کام کرنے چاہیے ۔ ہمیں ہر روز انکی اعلی سنت رسول پر عمل کرنا چاہیے ۔ ان لڑائی جھگڑوں فساد میں کچھ نہیں پڑا ۔ اصل کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ تو ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کرنی چاہیے ۔ 

اللہ تعالی بھی انھی لوگوں سے خوش ہوتے ہیں ۔ جو آپکی عقیدت کو سمجھتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔

قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے ۔

" بے شک آپ کی ذات ہی مکمل نمونہ عمل ہے "

ہم دنیا کے لوگوں کو فالو کرتے ہیں ۔ اگر ہمیں کسی کو فالو کرنا ہے ۔ تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب ۔

دعاؤں کی درخواست ۔

تحریر ۔ صباء معظم خان ۔


74