مری ماں کہتی ہے "میں پیدائیشی عاشق ہوں"۔شاعری کی ابتداء تو سن 1998 میں ہو گئی تھی جب میں محض آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن عشق کی ابتداء میری پیدائیش سے ہی ہو چُکی تھی، میں شاعر بعد میں بنا لیکن عاشق پیدا ہوا اور عاشق ہی مر جاؤں گا۔17 دسمبر 1982 کی صبح ، اک عاشق نے راولپنڈی ریلوے جنرل ہاسپتال کی  برستی بوندوں اور سیلی نم فضا میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بارش آج بھی اُتنا ہی بےچین کرتی ہے جتنا کسی عاشق کو معشوق سے ملاقات سے پہلے کے لمحے بے چین کرتے ہیں۔

میرا  بچپن عام بچوں سے مُختلف نہیں تھا لیکن اک انفرادیت تھی کہ جس زمانے میں بچے کارٹونوں کے شوقین تھے میں عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیوں میں کھویا ہوا تھا اور جس وقت میرے ہم عمر  عینک والا جن اور ویڈیو گیمز میں مگن تھے  میں اشفاق احمد کی "ایک محبت سو افسانے ' اور ممتاز مفتی کے "علی پُور کا ایلی " پڑھ رہا تھا اور جس عمر میں میرے ہم جماعتوں کو اپنے امتحانوں اور نتائج کی فکر تھی میں اس وقت "راجہ گدھ" کا قیوم بنا ، اپنی سیمی ڈھونڈ رہا تھا۔ یہ عشق میری گُھٹی میں ہے کہ بچپن سے ہی میں لاشعوری طور پر جنسِ مخالف پہ نثار ہوتا رہا ہوں، گو باقاعدہ عشق نہیں ہوا لیکن یہ کیا کم ہے کہ اُس عمر میں بھی میں گداز سینے اور مخروطی حنائی اُنگلیاں میرے تخیل کو شوقِ پرواز دیتی رہی ہیں۔

متحانِ ثانوی میں نے اچھے سے پاس کیا اور پھر شروع ہوا میرا اصلی جنم، راولپنڈی کے گارڈن کالج کی دیواریں وہاں کے کمرہِ جماعت اور درختوں کی چھاؤں مُجھے بہت اچھے س جانتے ہیں،گورڈن کالج کا سیمینار ہال اور شعبہ ہائے اُردو میرے نام سے چمکتا دمکتا رہا، شعر گوئی اُسی زمانے میں خاصا بن کر اُبھری، محترم جناب نواب نقوی صاحب کی محبت اور خصوصی شفقت ہے کہ آج شعراء میں میرا نام بھی شامل ہے اور میں کالج کی ادبی تنظیم کا جنرل سیکرٹری رہا، سن 2002 میں انٹر کیا پھر ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان سے بزنس میں گریجویشن کی اور سرکار کی چھتر چھایا میں ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا، 2006 میں سروے آف پاکستان میں ملازمت شروع کی جو 2016 تک جاری رہی ان دس برسوں میں بہت کُچھ ہوا بہت لوگ ملے، بہت لوگ گئے، کئی زخم ملے اور بدلے میں بدنام ہو گئے ہم۔2016 میں وطن کو خیر آباد کہا اور تب سے آج تک اسعودیہ کی ایک ملٹی نیشنل فرم میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔ غزل سے زیادہ مُجھے نظم اور خصؤصا نثری نظم اپنی اور کھینچتی ہے کہ اس میں گنجائش بہت زیادہ ہے اور بیان کی سرحدیں کُھلی ہیں ، غزل بھی کہی ہے نظم بھی  کہی ہے لیکن جو پزیرائی میری نظموں کو ملتی ہے وہ میرے لیے اثاثہِ جاں ہے نظموں پر مشتمل اک کتاب "دِلکشا" زیرِ طبع ہے ان شاء اللٰہ امسال کے آخر تک دستیاب ہو گی۔ جبکہ ایک ناول "گُلشیفتہ" کے نام سے زیرِ ترتیب ہے آنے والے دو سالوں میں دستیاب ہو گا۔



0
52