شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے
وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں
پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی
یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں
اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو
آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1850
ہم کافروں کی مشقِ سُخَن ہائے گُفتَنی
اُس مرحلے پہ آئی کہ اِلہام ہو گئی
دُنیا کی بےاُصول عداوت تو دیکھئے
ہم بُوالہوس بنے تو وفا عام ہو گئی
کل رات، اُس کے اَور مِرے ہونٹوں میں تیرا عکس
اَیسے پڑا کہ رات تِرے نام ہو گئی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
595
واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی
غم تیشۂ فرہاد بھی غم سنگِ گراں بھی
اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی
جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی
کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو
کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


1444
خبر نہیں تم کہاں ہو یارو
ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
1051
کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


1924
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا
اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا
☆☆☆

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1486