بھر چکے زخم دل کے تو مل کے سبھی میرے چاروں طرف چارہ گر آ گئے
|
جو بھی طوفان دریا سے اٹھے وہ سب میری دیوار تک میرے گھر آ گئے
|
وہ جو بچھڑے تھے مجھ پر برے وقت کی سختیاں دیکھ کر سازشیں دیکھ کر
|
جونہی پلٹا مقدر وہی دردمندی کے آنسو لیے لوٹ کر آگئے
|
آشنا ہے نہ واقف کوئی میرے دل کی تہوں میں چھپے رازداروں سے ہے
|
ہم کہ جنگل کی آب و ہوا چھوڑ کر کس خرابے میں بارِ دگر آ گئے
|
|