بھر چکے زخم دل کے تو مل کے سبھی میرے چاروں طرف چارہ گر آ گئے
جو بھی طوفان دریا سے اٹھے وہ سب میری دیوار تک میرے گھر آ گئے
وہ جو بچھڑے تھے مجھ پر برے وقت کی سختیاں دیکھ کر سازشیں دیکھ کر
جونہی پلٹا مقدر وہی دردمندی کے آنسو لیے لوٹ کر آگئے
آشنا ہے نہ واقف کوئی میرے دل کی تہوں میں چھپے رازداروں سے ہے
ہم کہ جنگل کی آب و ہوا چھوڑ کر کس خرابے میں بارِ دگر آ گئے
زخم رستے رہے جسم پستے رہے ہم نے اف تک نہ کی اور زباں چپ رہی
خوں چکاں ، نیم جاں ہم گلی سے تری بے ثمر آگئے بے اثر آ گئے
دادِ غم کون دے بے نواؤں کو اذنِ سخن کون دے اس بھرے شہر میں
اس کا شانہ میسر نہیں تھا سو ہم دل میں طوفاں لیے چشم تر آ گئے

0
1
38
بہت شکریہ

0