بھر چکے زخم دل کے تو مل کے سبھی میرے چاروں طرف چارہ گر آ گئے |
جو بھی طوفان دریا سے اٹھے وہ سب میری دیوار تک میرے گھر آ گئے |
وہ جو بچھڑے تھے مجھ پر برے وقت کی سختیاں دیکھ کر سازشیں دیکھ کر |
جونہی پلٹا مقدر وہی دردمندی کے آنسو لیے لوٹ کر آگئے |
آشنا ہے نہ واقف کوئی میرے دل کی تہوں میں چھپے رازداروں سے ہے |
ہم کہ جنگل کی آب و ہوا چھوڑ کر کس خرابے میں بارِ دگر آ گئے |
زخم رستے رہے جسم پستے رہے ہم نے اف تک نہ کی اور زباں چپ رہی |
خوں چکاں ، نیم جاں ہم گلی سے تری بے ثمر آگئے بے اثر آ گئے |
دادِ غم کون دے بے نواؤں کو اذنِ سخن کون دے اس بھرے شہر میں |
اس کا شانہ میسر نہیں تھا سو ہم دل میں طوفاں لیے چشم تر آ گئے |
اصغر علی بلوچ |
معلومات