مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا |
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا |
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب |
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا |
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا |
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا |
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ |
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا |
اشک تر قطرۂ خوں لخت جگر پارۂ دل |
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہہ کر نکلا |
کنج کاوی جو کی سینے کی غمِ ہجراں نے |
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا |
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میر |
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا |
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات