ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا |
پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا |
خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی |
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا |
کہاں تھا تو اس طور آنے سے میرے |
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا |
گئی ہوتی سر آبلوں کے ہوئی خیر |
بڑا قضیہ خاروں سے برپا ہوا تھا |
گریباں سے تب ہاتھ اٹھایا تھا میں نے |
مری اور دامان صحرا ہوا تھا |
زہے طالع اے میر ان نے یہ پوچھا |
کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا |
بحر
متقارب مثمن سالم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات