محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا |
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا |
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے |
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا |
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز |
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا |
صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں |
طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا |
ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے |
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا |
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز |
ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا |
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ! |
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات