| غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں |
| بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست |
| تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک |
| مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست |
| جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ |
| سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست |
| چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر |
| ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست |
| مہربانی ہاۓ دشمن کی شکایت کیجیے |
| یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست |
| یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ |
| ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ! ز بس تکرارِ دوست |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات