| دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے |
| میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے |
| ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے |
| آبگینہ تندئِ صہبا سے پگھلا جائے ہے |
| غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعِ گستاخی کرے |
| گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے |
| شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے |
| دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے |
| دور چشمِ بد تری بزمِ طرب سے واہ واہ |
| نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے |
| گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق |
| پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے |
| اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجور، یاں |
| مثلِ نقشِ مدّعاۓ غیر بیٹھا جائے ہے |
| ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا |
| رنگ کھُلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے |
| نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں |
| کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے |
| سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ |
| پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات