کیا دن تھے وہ کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا |
رو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا |
قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا |
بے چارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا |
اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں |
جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا |
جس صید گاۂ عشق میں یاروں کا جی گیا |
مرگ اس شکار گہ کا شکارِ رمیدہ تھا |
کوریِ چشم کیوں نہ زیارت کو اس کی آئے |
یوسف سا جس کو بد نظرِ نور دیدہ تھا |
افسوس مرگ صبر ہے اس واسطے کہ وہ |
گلہائے باغِ عشرتِ دنیا نہ چیدہ تھا |
مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی |
ہر نالہ میری جان کو تیغِ کشیدہ تھا |
حاصل نہ پوچھ گلشنِ مشہد کا بوالہوس |
یاں پھل ہر اک درخت کا حلقِ بریدہ تھا |
دل بے قرارِ گریۂ خونیں تھا رات میر |
آیا نظر تو بسملِ در خوں طپیدہ تھا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات