| آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے |
| ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے |
| حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں |
| گلدستۂ نگاہِ سویدا کہیں جسے |
| پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا |
| افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے |
| سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے |
| وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے |
| ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں |
| شوقِ عناں گسیختہ، دریا کہیں جسے |
| درکار ہے شگفتنِ گلہائے عیش کو |
| صبحِ بہار پنبۂ مینا کہیں جسے |
| غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے |
| ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟ |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات