اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں |
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے |
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ |
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے |
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے |
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے" |
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا |
تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے |
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں |
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے |
اسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو |
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے" |
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا |
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے |
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات