نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا |
تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا |
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے ! |
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا |
نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں |
پہلوِ اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا |
کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں |
ذرّہ ذرّہ رو کشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا |
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟ |
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا |
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا |
انتظارِ صید میں اِک دیدہِ بے خواب تھا |
میں نے روکا رات غالبؔ کو ، وگرنہ دیکھتے |
اُس کے سیلِ گریہ میں ، گردُوں کفِ سیلاب تھا |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات