شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے
وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں
پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی
یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں
اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو
آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں
ہر شکل پر فرشتہ رُخی کا گمان تھا
اُس عالمِ جنوں کی نظر بندیاں کہاں
بن جائے گی علامتِ نُصرت بدن کی قید
زنداں سے چُھپ سکے گی مری داستاں کہاں
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

1849

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں