حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے |
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے |
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ |
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے |
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان |
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے |
یہ بھی عجب طلسم ہے اے شورشِ حیات |
درد آشنا کی بات، نہ درد آشنا سنے |
شاہوں کے دل تو سنگ ہیں، شاہوں کا ذکر کیا |
یہ بھی نہیں کہ حال گدا کا گدا سنے |
عالم ہے یہ کہ گوشِ بشر تک ہے بے نیاز |
ہونا تھا یہ کہ بندہ کہے، اور خدا سنے |
سنتے بھی ہیں جو لوگ، تو یوں، داستانِ غم |
جیسے یزید سانحۂ کربلا سنے |
ہاں اے خدائے عرشِ برین و بتانِ فرش |
تم میں سے ہو کوئی تو مرا ماجرا سنے |
پشمینہ پوش راہ نشینوں کی التجا |
شاید کبھی وہ شاہدِ اطلس قبا سنے |
ہم نادر و یزید، نہ حجاج ہیں، نہ شمر |
اللہ، اور جوش، ہماری دعا سنے!! |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات