| غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے | 
| یہ رنج کہ کم ہے مۓ گلفام، بہت ہے | 
| کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ | 
| ہے یوں کہ مجھے دردِ تہِ جام بہت ہے | 
| نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں | 
| گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے | 
| کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی | 
| پاداشِ عمل کی طمعِ خام بہت ہے | 
| ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں؟ | 
| پابستگیٔ رسم و رہِ عام بہت ہے | 
| زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوفِ حرم سے؟ | 
| آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے | 
| ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو | 
| انکار نہیں اور مجھے ابرام بہت ہے | 
| خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ | 
| رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے | 
| ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے؟ | 
| شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے | 
                            بحر
                        
                        | 
                                            ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
                                             مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن  | 
                                    
اشعار کی تقطیع
                        تقطیع دکھائیں
                    
                    
    
معلومات