ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا |
جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا |
آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل |
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا |
ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ |
اب جی سے گذر جانا کچھ کام نہیں رکھتا |
ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں |
مانند نئے نرگس جو جام نہیں رکھتا |
بن اس کی ہم آغوشی بیتاب نہیں اب ہے |
مدت سے بغل میں دل آرام نہیں رکھتا |
میں داڑھی تری واعظ مسجد ہی میں منڈواتا |
پر کیا کروں ساتھ اپنے حجام نہیں رکھتا |
وہ مفلس ان آنکھوں سے کیونکر کے بسر آوے |
جو اپنی گرہ میں اک بادام نہیں رکھتا |
کیا بات کروں اس سے مل جائے جو وہ میں تو |
اس ناکسی سے رووے دشنام نہیں رکھتا |
یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے |
اک میر ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا |
بحر
ہزج مثمن اخرب سالم
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات