پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا |
اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا |
افسوس میرے مردے پر اتنا نہ کر کہ اب |
پچھتاتا یوں ہی سا ہے جو ہوتا تھا ہو چکا |
لگتی نہیں پلک سے پلک انتظار میں |
آنکھیں اگر یہی ہیں تو بھر نیند سو چکا |
یک چشمکِ پیالہ سے ساقی بہارِ عمر |
جھپکی لگی کہ دور یہ آخر ہی ہو چکا |
ممکن نہیں کہ گل کرے ویسی شگفتگی |
اس سر زمیں میں تخمِ محبّت میں بو چکا |
پایا نہ دل بہایا ہوا سیلِ اشک کا |
میں پنجۂ مژہ سے سمندر بلو چکا |
ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں |
دے جامِ خون میر کو گر منہ وہ دھو چکا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات