ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں |
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں |
ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور |
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں |
یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر |
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں |
کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر |
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں |
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور |
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں |
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی |
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں |
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب |
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات