عشوؤں کو چین ہی نہیں آفت کئے بغیر |
تم اور مان جاؤ شرارت کئے بغیر |
اہلِ نظر کو یار دکھاتا رہِ وفا |
اے کاش ذکرِ دوزخ و جنت کئے بغیر |
اب دیکھ اُس کا حال کہ آتا نہ تھا قرار |
خود تیرے دل کو جس پہ عنایت کئے بغیر |
اے ہم نشیں محال ہے ناصح کا ٹالنا |
یہ اور یہاں سے جائیں نصیحت کئے بغیر |
تم کتنے تُندخُو ہو کہ پہلو سے آج تک |
اک بار بھی اُٹھے نہ قیامت کئے بغیر |
چلتا نہیں ہے محفلِ حُسنِ جواں میں کام |
ہر جنبشِ نظر سے عبارت کئے بغیر |
مانا کہ ہر قدم پہ قیامت ہے پھر بھی جوش |
بنتا نہیں کسی سے محبت کئے بغیر |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات