جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی |
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی |
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور |
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی |
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے |
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی |
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو |
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی |
صد حیف وہ نا کام کہ اک عمر سے غالبؔ |
حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات