ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب |
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا |
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو |
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا |
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں |
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا |
موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال |
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا |
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب |
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات