(ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی) |
سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات |
سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات |
سلسلۂ روز و شب تار حریرِ دو رنگ |
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات |
سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں |
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات |
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ |
سلسلۂ روز و شب صیرفیِ کائنات |
تو ہو اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار |
موت ہے تیری برات موت ہے میری برات |
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا |
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات |
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر |
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات |
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا |
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا |
☆ ☆ ☆ |
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام |
جس کو کیا ہو کسی مرد ِخدا نے تمام |
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ |
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام |
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو |
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام |
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا |
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام |
عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفی |
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام |
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک |
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام |
عشق فقیہِ حرم عشق امیرِ جنود |
عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام |
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات |
عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات |
☆ ☆ ☆ |
اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود |
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود |
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت |
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود |
قطرۂ خونِ جگر سل کو بناتا ہے دل |
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود |
تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سوز |
تجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کشود |
عرش معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں |
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود |
پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا |
اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سجود |
کافرِ ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق |
دل میں صلوۃ و درود لب پہ صلوۃ و درود |
شوق مری لے میں ہے شوق مری نے میں ہے |
نغمۂ اللہ ھو میرے رگ و پے میں ہے |
☆ ☆ ☆ |
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل |
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل |
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار |
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل |
تیرے در و بام پر وادیِ ایمن کا نور |
تیرا منارِ بلند جلوہ گِِۂ جبرئیل |
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے |
اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل |
اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے ثغور |
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل |
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب |
عہد کہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل |
ساقیٔ ارباب ذوق فارسِ میدانِ شوق |
بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل |
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ |
سایۂ شمشیر میں اس کا پنہ لا الہ |
☆ ☆ ☆ |
تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز |
اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز |
اس کا مقامِ بلند اس کا خیالِ عظیم |
اس کا سرور اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز |
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ |
غالب و کار آفریں کار کشا کارساز |
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات |
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز |
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل |
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز |
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو |
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز |
نقطۂ پرکار حق مرد خدا کا یقیں |
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز |
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ |
حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ |
☆ ☆ ☆ |
کعبۂ ارباب فن سطوتِ دینِ مبیں |
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں |
ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر |
قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں |
آہ وہ مردان حق وہ عربی شہسوار |
حاملِ خلقِ عظیم صاحبِ صدق و یقیں |
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب |
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے شاہی نہیں |
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب |
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں |
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی |
خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں |
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال |
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں |
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے |
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے |
☆ ☆ ☆ |
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں |
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں |
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے |
عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں |
دیکھ چکا المنی شورشِ اصلاحِ دیں |
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں |
حرف غلط بن گئی عصمتِ پیرِ کنشت |
اور ہوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں |
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب |
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں |
ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر |
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں |
روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب |
رازِ خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں |
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا |
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا |
☆ ☆ ☆ |
وادیٔ کہسار میں غرق شفق ہے سحاب |
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب |
سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت |
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب |
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی |
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب |
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں |
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب |
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے |
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب |
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی |
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب |
صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم |
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب |
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر |
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر |
☆ ☆ ☆ |
بحر
منسرح مثمن مطوی مکسوف
مفتَعِلن فاعِلن مفتَعِلن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات