کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں |
یہ سُوِ ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں |
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند |
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں |
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع |
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں |
رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے |
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں |
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے |
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں |
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے |
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں |
ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر |
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں |
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی |
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں |
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز |
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں |
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود |
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں |
غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست |
مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات