کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا |
اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا |
تھا جسم کا ترک اولیٰ ایام میں پیری کے |
جاتا تھا چلا ہر دم جامہ بھی پرانا تھا |
ہر آن تھی سرگوشی یا بات نہیں گاہے |
اوقات ہے اک یہ بھی اک وہ بھی زمانہ تھا |
پامالی عزیزوں کی رکھنی تھی نظر میں ٹک |
اتنا بھی تمھیں آ کر یاں سر نہ اٹھانا تھا |
اک محوتماشا ہیں اک گرم ہیں قصے کے |
یاں آج جو کچھ دیکھا سو کل وہ فسانہ تھا |
کیونکر گلی سے اس کی میں اٹھ کے چلا جاتا |
یاں خاک میں ملنا تھا لوہو میں نہانا تھا |
جو تیر چلا اس کا سو میری طرف آیا |
اس عشق کے میداں میں میں ہی تو نشانہ تھا |
جب تونے نظر پھیری تب جان گئی اس کی |
مرنا ترے عاشق کا مرنا کہ بہانہ تھا |
کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منھ |
کل میر کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانہ تھا |
کب اور غزل کہتا میں اس زمیں میں لیکن |
پردے میں مجھے اپنا احوال سنانا تھا |
بحر
ہزج مثمن اخرب سالم
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات