| بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے |
| اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے |
| یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں |
| ہُما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے |
| غلط ہی ہو گئی تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے |
| اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کو جٹا سمجھے |
| نباتاتِ زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذَ اللہ |
| اسے برق اور اُسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے |
| گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹا کر ان کو نسبت دیں |
| اسے ظلمات، اُسے ہم چشمۂ آبِ بقا سمجھے |
| جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے |
| یدِ بیضا اسے اور اُس کو موسیٰ کا عصا سمجھے |
| جو اس تشبیہ سے بھی داغ اُن کو آتا ہو |
| اسے وقتِ نمازِ صبح اور اُس کو عشا سمجھے |
| جو یہ نسبت پسندِ خاطرِ والا نہ ہو تو پھر |
| اسے قندیلِ کعبہ، اُس کو کعبے کی ردا سمجھے |
| اسدؔ ان ساری تشبیہوں کو رد کرکے یہ کہتا ہے |
| سویدا اِس کو سمجھے اُس کو ہم نورِ خدا سمجھے |
بحر
|
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات