| عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں |
| باعثِ ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں |
| منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں |
| پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں |
| سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی |
| نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں |
| کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری |
| نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں |
| خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں |
| صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں |
| مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے |
| تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں |
| دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا |
| کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں |
| ہوچکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں |
| جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں |
| زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو |
| جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں |
بحر
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات