وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا |
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا |
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا |
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا |
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر ! |
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا |
کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں |
مجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھا |
ہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکن |
اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا |
ترا کمال، کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں |
غزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات