یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ "یا رب" ، مجھے |
سبحۂ زاہد ہوا ہے ، خندہ زیرِ لب مجھے |
ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ در ، رہنِ سخن |
تھا طلسمِ قفلِ ابجد ، خانۂ مکتب مجھے |
یا رب ! اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے! |
رشک ، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے |
طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں! |
آرزو سے ، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے |
دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے |
عشق سے آتے تھے مانع ، میرزا صاحب مجھے |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات