| جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں |
| اور اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں |
| اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری |
| سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں |
| جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب |
| گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں |
| مت ہو جیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل |
| جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں |
| پائی ہے جگہ ناصیۂ بادِ صبا پر |
| خاکستر پروانۂ جانبازِ فنا ہیں |
| ہر حال میں ہیں مرضیِ صیّاد کے تابع |
| ہم طائرِ پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں |
| اے وہم طرازانِ مجازی و حقیقی |
| عشّاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں |
| ہم بے خودیِ شوق میں کر لیتے ہیں سجدے |
| یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں |
| اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالبؔ |
| دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں |
بحر
|
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات