خود جان دے کے روح کو آزاد کیجیے |
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجیے |
بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے |
تب جا کے ان سے شکوۂ بے داد کیجیے |
حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں |
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجیے |
بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاہ |
اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجیے |
کچھ دردمند منتظرِ انقلاب ہیں |
جو شاد ہو چکے انہیں ناشاد کیجیے |
شاید کہ یاس باعثِ افشائے راز ہو |
لطف و کرم بھی شاملِ بے داد کیجیے |
بیگانۂ رسومِ جہاں ہے مذاقِ عشق |
طرزِ جدیدِ ظلم ایجاد کیجیے |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات