دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں |
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں |
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل |
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں |
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟ |
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں |
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے |
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں |
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟ |
لعل و زمرّد و زر و گوہر نہیں ہُوں میں |
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟ |
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟ |
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟ |
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟ |
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا |
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات