چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے |
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے |
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال |
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے |
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یا رب! کب تلک |
آب گینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے |
مے کدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست |
مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے |
خطِ عارض سے ، لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد |
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات