| بیدار تجربوں کو سلا کر چلی گئی |
| ہونٹوں سے وہ شراب پلا کر چلی گئی |
| خس خانۂ دماغ سے اٹھنے لگا دھواں |
| اِس طرح دل میں آگ لگا کر چلی گئی |
| میرے کتاب خانۂ ہفتاد سالہ کو |
| موجوں میں جو در آئے تو قلزم کراہ اٹھیں |
| وہ بوند انکھڑیوں سے گرا کر چلی گئی |
| روئے صبیح و گوشۂ چشمِ سیاہ سے |
| حرفِ خرد کو بول بنا کر چلی گئی |
| تا دیر آسمان و زمیں گونجتے رہے |
| پا زیب اِس لٹک سے بجا کر چلی گئی |
| شاعر ہر ایک دور میں رہتا ہے طفل خو |
| یہ شرم ناک بات بتا کر چلی گئی |
| رگ رگ سے مغبچوں کے نکلنے لگے جلوس |
| وہ یوں لہو میں دھوم مچا کر چلی گئی |
| دانش کدے کی مشعلِ عالم فروز کو |
| اک لرزشِ نظر سے بجھا کر چلی گئی |
| افکار نے جو نصف صدی میں بنائے تھے |
| پل بھر میں وہ نقوش مٹا کر چلی گئی |
| حکمت کی بارگاہ کے سنگیں حصار کو |
| عشوے کی ایک ضرب سے ڈھا کر چلی گئی |
| فکر و نظر کے طرۂ طرفِ کلاہ کو |
| انداز کی انی پر اٹھا کر چلی گئی |
| وہ جوش غزنوی کی طرح آئی اور مجھے |
| بِشکستہ سومنات بنا کر چلی گئی |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات