کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے |
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے |
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے |
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے |
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے |
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے |
ترا لطف وجہِ تسکیں نہ قرار شرحِ غم سے |
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے |
کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا |
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے |
چلو فیض دل جلائیں کریں پھر سے عرضِ جاناں |
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے |
بحر
رمل مثمن مشکول
فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات