یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا |
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا |
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی |
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا |
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل |
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا |
تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے |
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا |
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے |
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا |
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار |
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا |
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل |
ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا! |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات