کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے
|
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے
|
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں
|
اگر میں حدود زماں و مکاں سب مٹا دوں
|
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں
|
تو ہر قید اُٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے
|
|