تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
14 فروری 2021
غزل
ناصر کاظمی
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
جب سے دیکھا تیا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
اور دے مجھ کو دے اورساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع
3
3042
معلومات