اے جہاں زاد، نشاط اس شبِ بے راہ روی کی |
میں کہاں تک بھولوں؟ |
زور ِ مَے تھا، |
کہ مرے ہاتھ کی لرزش |
تھی کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا |
تجھے حیرت نہ ہوئی! |
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر |
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت |
تجھے حیرت نہ ہوئی! |
اے جہاں زاد، میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف |
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں، |
تو مَیں سوچتا ہوں |
سوچتا ہوں تو مرے سامنے آئینہ رہی |
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی |
تو مرے سامنے آئینہ رہی، |
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے |
اپنی ہی صورت کے سوا |
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا! |
لکھ رہا ہوں تجھے خط |
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے |
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں |
اب ایک ہی صورت کے سوا! |
لکھ رہا ہوں تجھے خط |
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟ |
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے |
خط کیوں نہ لکھوں؟ |
اے جہاں زاد، |
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی |
مجھے پھر لائے گی؟ |
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟ |
وقت اِک ایسا پتنگا ہے |
جو دیواروں پہ آئینوں پہ، |
پیمانوں پہ شیشوں پہ، |
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ |
سدا رینگتا ہے |
رینگتے وقت کے مانند کبھی |
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید! |
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد، |
تو میں سوچتا ہوں: |
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی |
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی |
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں |
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی |
بس ایک نشانی ہے یہی |
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی |
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت |
آکے مجھے دیکھتی ہے |
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے |
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں |
کھیل اِک سادہ محبّت کا |
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی |
کھیلتے ہیں |
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں، |
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں |
دل کے جینے کے بہانے کے سوا |
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد |
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد |
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد |
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں |
دردِ محرومی کی، |
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟) |
میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں |
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں |
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں |
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے |
میرے افلاس کی، تنہائی کی، |
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی، |
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں |
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے |
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے |
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے |
تو مَیں جی اٹھتا ہوں |
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا! |
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے، |
کوئی پنکھا بھی نہیں، |
تجھے جس عشق کی خو ہے |
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں! |
تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات |
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں |
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں |
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں! |
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے |
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے! |
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟ |
اے جہاں زاد، |
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا |
اس کا نہیں کوئی جواب |
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے! |
اے جہاں زاد |
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی |
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں |
کے کنارے گونجی |
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا |
صدیوں کا کنارا نکلا |
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے |
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے، |
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے |
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا |
ہر اِک فن کے پرستار کا |
آئینہ ہے |
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات