ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے رقابت اسے بھی تھی
محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حالِ دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

3172

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں